پہلی قسط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ کتابیں دست شناسی اور ایسٹرولوجی کی
مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے عالمی اخبار پہ جناب ایڈیٹر نگہت نسیم صاحبہ کی طرف سے ایسٹرولوجی کے بارے میں لکھنے کا موقع ملا۔انسان کی پہلی درس گاہ اس کا گھر اور اس کے ارد گرد کا ماحول ہوتا ہے۔میں نے جس گھر اور ماحول میں آنکھ کھولی تو وہاں اپنے والدِ محترم کو کتاب پڑھنے کا شوقین دیکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے موضوعات پر کتب پڑھنے کو ملیں۔ انہی میں کچھ کتابیں دست شناسی اور ایسٹرولوجی کی بھی میسر آئیں۔
یوں یہ شوق پروان چڑھا ، وقت کے ساتھ تجسس بڑھ گیا اور میں نے باقاعدہ طور پر اس فن کی تعلیم 2002 میں حاصل کی۔ انسان کی لگن اور جستجو ہی اس کے راستے ہموار کرتی چلی جاتی ہے ۔ چناچہ پاکستان ، عمان ، دبئی میں مقیم اس فن کے حامل افراد سے اس کے بارے میں کافی معلومات اکھٹی کیں۔انسان میں تدَبر اور دریافت و ایجاد کا مادہ روزِ اوّل سے ہی پایا جاتا ہے۔ اسی بنیادی خوبی کی وجہ سے انسان نے اپنے ابتدائی دور میں جن اشیا پر غورو فکر کیا ان میں سب سے پہلی یہ زمین اور آسمان تھے۔
میں سوچتا ہوں اس وقت کے انسان کے پاس کوئی آلات نہیں تھے پھر بھی صدیوں اس نے آسمان میں ہونے والی حرکات و سکنات ،اور اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلے شواہد میسوپوٹامیہ کی تہذیبی دور سے غاروں میں موجود ہڈیوں اور دیواروں پر بنے نشانات سے ملے۔جس میں انسان نے چاند کی روشنی سے پانی پر مرتب ہونے والے اثرات کو نوٹ کرنا شروع کیا ابتدائی دور میں انسان یہ جان پایا کہ دو سیارے سورج اور چاند، زمین اور انسان پر اپنے کیا کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تین ہزار سال قبل مسیح تک انسان باقی پانچ سیاروں کے بارے میں بھی شناسائی رکھنے لگا۔ اٹھارہ سو سال قبل مسیح میں بابل اور یونان میں نا صرف ان سات سیاروں کو تسلیم کر لیا گیا بلکہ ان کے مختلف بارہ درجات تہہ کر لئے گئے، اور بارہ بروج کے اندر ان سات سیاروں کی موجودگی یا مختلف اطراف سے ایک دوسرے کے فاصلے سے پیدا ہونے والے اثرات، اور ان کا انسانی زندگی ، جسم اور ذہن پر پڑنے والے اثرات اور پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو متعین کیا گیا اور اس عمل کو ایسٹرولوجی کے طور پر باقاعدہ ایک علم کی حیثیت دی گئی۔
یہ سسلا صدیوں جاری رہا۔ تحقیق موجودہ نتائج کو مرتب کرتی رہی۔ اور اس حساب کا باقاعدہ واضح فارمولا سسٹم تہہ کیا گیا جیسا کہ ریاضی کی کیلکولیشن میں کیا جاتا ہے اور ریاضی کی ہی طرح اس کے نتائج ہر بار وہی آنے پر اس کو ایک سائنس کا درجہ دے دیا گیا۔
ہزار سال قبل یہ علم یورپ، عرب ،یونان،چین اور ہندوستان میں تیزی سے اپنی جگہ بنانے لگا اور ہر علاقے کے لوگوں نے اس کو انسانوں کے مسائل جاننے اور ان کے حل ، سہی اور بہتر اوقات کو بہترین طریقے سے معلوم کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ چونکہ انسان کی جبلت میں یہ بات شامل ہے اور تدبر و جستجوکے وصف کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے تو اس نے یہ بھی ایجاد کرنا چاہا کہ ہم مستقبل میں کیسے جھانک سکتے ہیں۔ جس پر آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی عمل پیرا ہے۔ سو سال قبل ہندوستان میں اس علم کوکچھ مذہبی رنگ میں پیش کیا گیا اور اسی کا ایک حصہ بنا لیا گیا جس کی وجہ سے کچھ توہمات اس میں شامل ہوئیں۔ جن کو وقتا فوقتا دلیلوں سے واضح کیا جاتا رہا اور لوگوں کو آسان طریقے سے اس کو سیکھنے اور پڑھنے کے طریقوں سے متعارف کروایا جاتا رہا۔
پاکستان میں موجود کچھ احباب نے اس موضوع پر کافی تحقیقات کے بعد کتب بھی لکھیں اور لوگوں کے سامنے آسان انداز میں وہ کلیات پیش کیے جو پہلے دور میں مشکل انداز میں پیش کیے جاتے رہے۔
میرا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے جو چاہتا ہے کہ آپ کے پاس جو بھی علم یا ہنر ہے اس کو لوگوں تک آسان انداز میں پہنچایا جائے اور واہمات اور توہمات سے پاک رکھا جائے تاکہ وہ اس سے استفادہ حاصل کریں۔
ایسٹرولوجر
محمد علی
M_alikh@hotmail.com
(آپ تمام قارین کی پسندیدگی کا شکر یہ—– محمد علی (آسٹرولوجر