افسانہ ؛ بیل فلاور
تحریر ؛ ڈاکٹر نگہت نسیم
یکم جنوری 1986
آج میں بہت اداس ہوں ، گزرتے وقت کا کوئی لمحہ بھی ایسا مجھے یاد نہیں آ رہا جس میں کچھ الگ ہوا ہو ۔۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں سال کا پہلا لمحہ ہو یا آخری کچھ بھی تو نہیں بدلتا سوائے کلینڈر کے ۔ ۔۔ یہ روزانہ کی ترتیب والی زندگی سے وحشت ہونے لگی ہے ۔ کبھی تو کچھ ایسا ہوا کرے جو نا ہوا ہو کبھی !
——————————-
5 جنوری 1986
آج کئی دنوں بعد ڈائری لکھنے بیٹھی ہوں ۔ پر سوچ رہی ہوں کیا لکھوں ۔۔؟ کیسے لکھوں ۔۔؟ دل پر کیا قیامت گزرگئی ۔ بی بی جی کو بیٹھے بٹھائے جانے کیا ہوا ، باتیں کرتے کرتے ایکدم سے گر گئی اور خاموش ہو گئی ۔۔ اف میرے خدا ہسپتال میں ان کا داخلہ اور ان کی بے بسی ۔۔ اتنی تکلیف دہ اور مایوس سے دن اور رات ۔ بی بی جی یوسف اور مجھ پر جان چھڑکتی ہیں ، اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ۔۔؟ اف مجھ سے اس سے آگے کچھ نہیں سوچا جا رہا ۔۔!
ہمارے گھر کا سنگھار ہماری بی بی جی تھیں ، ساری محبتیں انہیں کی برکتوں سے تھیں ۔ امی جی کہتی ہیں کہ جب وہ بیاہ کر آئی تھیں تو انہوں نے دہلیز کے کناروں پر شگون کا تیل ڈالتے ہوئے ان کا ماتھا چوم کر کہا تھا “ تم میری بہو نہیں ، بیٹی ہو “ ۔ اس دن کے بعد سے کوئی دن ایسا نہ تھا جب انہوں نے ماں بن کر اپنی بیٹی کوچاہا نا ہو ۔ ان کی محبت جو دیکھتا حیران رہ جاتا ۔ امی جی آج کتنی بےقراری سے بی بی جی کے ہاتھ اپنی آنکھوں کو لگا رہی تھیں تو کبھی انہیں چوم رہی تھیں ۔۔ ابا جی سے دیکھا نا گیا تو انہیں زبردستی یوسف کے ساتھ گھر بھیج دیا ۔ یوسف مجھ سے دو برس ہی تو چھوٹا تھا کیسی زمیداری سے ابا جی کے ساتھ ہسپتال کے لمبے لمبے برآمدوں میں بھاگتے بھاگتے آج اچانک بڑا ہو گیا تھا۔
بی بی جی کہا کرتی ہیں “ محبت ایثار ہے ، چاہے کسی سے ہو “ ۔۔۔۔۔۔
میرے آنسو دعا بن کر ایک تواتر سے بہہ رہے ہیں ۔۔۔ “ اللہ میری بی بی جی کو اچھا کر دے “ ۔۔
—————————————————-
12 جنوری 1986
بی بی جی کو ہسپتال داخل ہوئے آج پورا ایک ہفتہ ہو چکا ہے پر ان کی بیماری میں رتی بھر سدھار کی صورت دیکھائی نہیں دے رہی ۔ جانے کیوں میری چھٹی حس وہ بات کہہ رہی ہے جو میں سوچنا نہیں چاہتی ۔ ڈاکٹروں کو نہیں چاہیئے کہ ہر بات کھول کھول کر بتا دیا کریں ۔۔ سچ ، امیدوں کے سفر کو تھکا جو دیتا ہے ۔ پر سچ نہ کھلے تو انسان حقیقت کو ماننے میں خود تھک بھی سکتا ہے ۔۔ کچھ بھی ہو ، کیسے بھی ہو کچھ رشتے سب کے پاس ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی جدائی کو دل مانتا ہی نہیں ہے ۔۔ گھر کے بزرگ چپ ہو جائیں تو زندگی کتنی ویران سی لگتی ہے ۔۔ لگتا ہے جیسے گھر سے برکتیں اٹھ گئی ہوں ۔
ہائے ۔۔ کیا ہمارے گھر سے بھی برکتیں اٹھنے والی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
——————————————
20 جنوری 1986
15 جنوری کا دن کتنا تاریک طلوع ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر سے برکتیں اٹھ گئیں ۔۔
محبتیں ہجرت کر گئیں ۔۔۔
ہمارے گھر کا سب سے بڑا اور اہم ستون گر گیا ۔۔۔۔۔
ہائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بی بی جی سپرد خاک ہو گئیں
کوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تو بولے ۔۔۔۔ پناہوں میں بے گھری کیسی لگتی ہے ؟
———————————————-
27 فروری 1986
بی بی جی کا چہلم بھی ہو گیا ۔۔۔ کاروبار زندگی پھر سے ویسے ہی ہوگئے جیسے پہلے ان کے زمانے میں ہوا کرتے تھے ۔۔ ہاں ابا جی کی مسکراہٹ بی بی جی کے جانے کے بعد مسکرا نہ سکی ۔۔ بی بی جی تو ان کی ماں تھیں پر وہ ہم سب کی سب سے اچھی اور بڑی ماں تھیں ۔ امی جی لحاف دھوپ میں ڈالتے ہوئے کئی بارچپکے چپکے اپنے کاسنی دوپٹے سے آنسو پونچھ چکی تھیں ۔۔ یہ کام کئی برسوں سے وہ بی بی جی کے ساتھ مل کر کیا کرتی تھیں ۔۔
مجھے یاد آیا ابا جی کے خالہ زاد بھائی انکل حمید جو سدا سے اسلام آباد میں آباد تھے ، سردیوں پر جان دیا کرتے تھے ۔ پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم سب ان سے ملنے گئے تھے ۔ بیزار سی صورت بنائے بار بار کہہ رہے تھے “ جانے خدا کو گرمیوں سے اتنا عشق کیوں ہے “ ۔۔ اور آنٹی سلمی انہیں اللہ میاں کی خفگی سے ڈرانے کے لیئے ہر بار کہتیں “ توبہ کریں جی “ اور انکل حمید جھلاتے ہوئے ان کے پاس سے اٹھ جاتے ، دن میں کئی کئی بار نہاتے اور رات کو ہم سب کو آئیس کریم ضرور کھلاتے ۔ یوسف جسے امی جی لاکھ سمجھا کر ساتھ لائی تھیں ان کی ہاں میں ہاں ضرور ملاتا “ انکل جی گرمی کے موسم کو “جہنم کی پریکٹس “ کہتے ہیں ۔۔ امی جی کے بعد جب میں بھی اسے گھورتی تووہ دبی آواز میں کہتا “ کیا ہے آپا “ اورادب میں کچھ دیر چپ رہتا ۔۔۔۔ پھر وہی انکل حمید کی باتوں پر اس کی من مانیاں ہو تیں ۔
شاید موسموں کی اسی بے ادبی سے بچنے کے لیئے امی جی کو بھی بی بی جی کی طرح سارے موسم ہی اچھے لگتے تھے ۔ اس قدر شوق اور لگن سے اس کی پذیرائی کرتیں کہ موسم کبھی کبھی ٹھہر ہی جایا کرتے تھے ۔۔۔۔
مجھے بھی بی بی جی ، امی جی کی طرح بے ادب اور گستاخ ہونا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔ انسان اور موسم مہمان ہی تو ہوتے ہیں ۔
———————————————————————
30 مارچ 1986
آج کل ہر طرف پھول ہی پھول بکھرے ہوئے ہیں ۔ مجھے پیلے گلاب ہمیشہ سے بہت اچھے لگتے ہیں ۔آج رضوان نے کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا کہ” پیلے گلاب نفرت کی نشانی ہوتے ہیں “ ۔۔۔ توبہ میری آواز احتجاجا کیا اونچی ہوئی کہ امی جی نے مجھے ڈانٹ دیا ۔۔“ اچھا نہیں لگتا بیٹی “ ۔ ارے کیا اچھا نہیں لگتا ۔۔ اب اگر وہ ابا جی کے جگری دوست انکل خالد کا اکلوتا ہے ۔۔۔ ہوسٹل میں رہتا ہے۔۔ مجھ سے بڑا ہے تو ہوا کرے ۔۔ پر امی جی کو تو ہر اس کے آنے جانے سے لے کر کھانے پینے تک کی فکر رہتی تھی ۔۔ اور یوں وہ کچھ زیادہ ہی گھر پر نظرآتا تھا اور پھر یوسف کے ساتھ مل کر صرف شرارتیں ہوتیں ، جسے امی جی رونق سے تعبیر کرتی تھیں ۔۔ ارے یاد آیا دو دن بعد رانی کی سالگرہ ہے اور مجھے اس کے لیئے تحفہ بھی لینا ہے ۔۔
رانی، زندگی کے حبس بھرے دنوں میں روزن بن جانے والی دوست تھی ۔۔ رانی ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھی ۔۔ جس سے مل کر ہر پل یاد گار ہوجاتا تھا ۔۔۔۔۔۔
مجھے اس سے یہ بھی پوچھنا ہے کیا رنگوں اور پھولوں کو نفرت کرنا آتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے شاید رضوان کی بات اچھی نہیں لگی کہ پیلے گلاب نفرت کی نشانی ہوتی ہے ۔
———————————————–
٤ اپریل ١٩٨٦
میرے خدا ۔۔۔۔ آج حد ہو گئی ۔۔ رانی کی سالگرہ سے واپسی پر رضوان ہی مجھے لینے آیا ہوا تھا ۔۔۔ اف وہ کتنا بولتا ہے ۔۔ کہہ رہا تھا “ تم آج اچھی لگ رہی ہوں لیکن موڈ سے ڈریکولا “ ۔۔۔ میرے چپ رہنے پر اسے مزید موقع مل گیا تھا ۔۔ کہہ رہا تھا ۔۔ “ زندگی اتنی حسین ہے اسے خوشی خوشی گزارنا سیکھو لڑکی ۔۔ مشکل بننے سے زندگی بدصورت ہو جاتی ہے “ ۔۔ گھر آچکا تھا ۔۔ میں گاڑی سے اتر ہی رہی تھی کہ اس نے دروازہ تھام لیا ۔۔ بڑی رازداری سے کہہ رہا تھا “ سنو لڑکی مجھے تمہارے ساتھ اپنی باقی کی ساری زندگی گزارنی ہے “ ۔۔ میں نے حیرانگی سے اسے دیکھا ، اف اس کی آنکھوں کی بولیاں مجھے برف کر رہی تھیں ۔۔ بڑی مشکل سے اپنے کمرے تک پہنچی ۔۔۔۔۔۔۔ “ جواب ادھار ہے جی “ ۔۔ اور اب
میں سوچ رہی ہوں کیا جواب ہو اس بات کا ۔۔۔۔ ؟
میں مشکل لڑکی نہیں ہوں رضوان ۔۔۔ بات یہ ہے کہ تم مجھے سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔۔ شاید تم بھی عام انسانوں کی طرح عورت کے ماتھے کے پیچھے چھوٹا سا سر دیکھنا چاہتے ہو ۔ ایک ایسا روبوٹ چاہتے ہو جس کا معاشی ، جسمانی ، جذباتی کنٹرول تمہارے ہاتھ میں ہو ۔
لیکن سنو ۔۔ رضوان ۔۔ میں کوئی بیل بوٹا نہیں ہوں جسے جب چاہا جڑ سے اکھاڑا اور جہاں چاہا لگا دیا ۔۔ پھر اپنے گرد لپیٹ لیا ۔۔۔۔۔ میں لڑکی ہوں ۔۔جس کے ماتھے کے پیچھے دماغ ہے جو اپنی ایک سوچ رکھتی ہے ، اس کے چہرے پر دو آنکھیں ہیں جو سارے موسموں کی رازدار ہیں ۔۔۔ اس کے پاس دل ہے جو پھولوں کے دکھ سے بھی واقف ہے ۔۔ اس کے پاس زبان بھی ہے جو خوشیاں بانٹنا جانتی ہے ۔ پھر اس لڑکی کے پاس تعلیم بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے پچھلے پہر دکھ سے سوچ رہی ہوں کیا پڑھی لکھی لڑکیاں “ مشکل “ ہوتی ہیں ۔۔۔۔ ؟
کیا ان کا حق نہیں ہوتا کہ ان سے پوچھا جائے کہ تمہیں کس کے ساتھ عمر گزارنی ہے ۔۔؟
————————————-
٣٠ اپریل ١٩٨٦
اپریل کے باقی سارے صفحے خالی پڑے تھے ۔۔۔۔۔ میری زندگی کے خالی صفحوں کی طرح ۔۔ میں ابھی تک حیران ہوں کہ امی جی اور ابا جی نے مجھ سے پوچھے بغیر رضوان کے ساتھ میرا ساتھ طے کر دیا ۔۔۔۔ میں کچھ بھی تو نا کہہ سکی ۔۔۔۔ گم صم بیٹھی ہوں ۔۔ خود سے باتیں کر رہی ہوں ۔۔ کیا میں رضوان کو پسند کرنے لگی ہوں ۔۔ شاید تعلقات ہی انسیت بن جاتے ہیں پھر محبت میں ڈھل جاتے ہیں ۔۔
کہیں ایسا تو نہیں میرا اپنے رشتوں پر مان ٹوٹ رہا ہے ۔۔۔۔۔
کم از کم امی جی کو مجھ سے بات تو کرنی چاہیئے تھا ۔۔۔۔۔۔ میرا دم گھٹنے لگا ہے شاید ۔۔۔
———————————————
٦ مئی ١٩٨٦
خدا خدا کر کے پانچ مئی آئی تھی ۔۔ بائیولوجی میں ماسٹر کرنے کا خواب پورا ہونے والا تھا ۔۔ امتحانات بھی ختم ہو چکے تھے ۔۔۔ یونیورسٹی میں جاب بھی مل گئی تھی ۔ خدایا میں کتنی خوش تھی کہ جیسا میں چاہتی تھی ویسا ہی ہو رہا تھا ۔۔ پر آج جب گھر واپس آئی تو رضوان ڈرائینگ روم میں ہی بیٹھا ہوا تھا ۔ میں کھانا لے کر وہیں آ گئی تھی ۔۔ اس نے بغیر کسی تمہید کے کتنے سکون سے کہہ دیا تھا مجھے جاب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ اور یہ بھی کہ شادی کے بعد کونسی نوکری کرنی ہے ۔۔۔ پھر یہ بھی کہ مزید پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔ لیکن میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوں اور ۔۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی بات مکمل کرتی وہ اپنا فیصلہ سنا کر یوسف کے کمرے میں جا چکا تھا ۔۔ میں سوچ رہی ہوں
نوکری کیا کسی معاشی کمی کے بغیر نہیں کی جا سکتی ۔۔
ہائے کہیں ایسا تو نہیں کہ تم بھی عام مردوں کی طرح پڑھی لکھی ، سمجھدار لڑکیوں سے خائف ہو گئے اور اپنی بادشاہت اور حکمرانی جاتی ہوئی لگ رہی ہے ۔۔۔
کاش ایسا نہ ہوا ہوتا ۔۔۔ میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں ہیں رضوان ۔۔۔۔ میں سوچتی تھی تم ایسے نہیں ہو سکتے ۔۔
تم مجھے کبھی بھی اپنے معاشی پروں میں چھپا کر سارے موسموں سے آزاد نہیں کرو گے ۔۔مجھے جذباتی آسودگی سے کبھی محروم نہیں کرو گے ۔۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوا ، تم نے بھی نہیں سمجھا عورت بہت مظبوط ہونے کے باوجود بہت کمزور بھی ہوتی ہے ۔ آج بھی اسے وہی گھونسلے اچھے لگتے ہیں جسے اس کے مرد نے تنکا تنکا جمع کر کے بنائے ہوتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں رضوان تم نے مجھے چیلنج کی طرح قبول کیا ہے اور ایک دن اپنی جیت کا جھنڈا لہرا کر اپنے تابع کر لینا چاہتے ہو ۔۔ پر سنو شرطوں پر صرف ہار جیت ہوتی ہے رشتے نہیں بنتے ۔۔
لڑکیاں بیلوں جیسی نازک ہوتی ہیں ۔۔ انہیں ان کی زمین سے جدا کرو گے تو وہ مر جائیں گی ۔۔ جانے کیوں آج یہ سب لکھتے ہوئے مجھے کیوں ڈر لگ رہا ہے کہ میں تم سے بدگمان ہو رہی ہوں ۔۔۔۔ تمہارا روشن چہرہ گم ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا ۔۔!
———————————————————-
١٣ مئی ١٩٨٦
آج رضوان کو مجھ سے خفا ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے ۔۔ سوچتی ہوں اگر یہ تمہاری عزت کا مسلہ نا ہوتا تو یہ اتنا سادہ تھا کہ باہمی بات چیت سے سلجھ سکتا تھا لیکن تم نے تو رفاقت کی شرط ہی یہی رکھ دی تھی ۔۔۔
جانے مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے میری ڈگریاں جدائیاں خرید لائی ہے ۔
————————————————–
یکم جون ١٩٨٦
یکم جون مجھے ہمیشہ اپنی دوست فوزیہ کی جدائی کی یاد دلا جاتا ہے ۔۔ وہ چار برس پہلے جو امریکہ جو گئی تو سب ہی کچھ بھول گئی ۔۔ سوچ رہی ہوں کہیں اسے بھی کسی رضوان سے واسطہ نہ پڑ گیا ہو جس کی ہمیں اس وقت سمجھ ہی نا آئی ہو۔ میرے دل کا جو کونا اس دن ٹوٹا تھا وہ آج تک جڑ نہیں پایا تھا ۔ مجھے کیوں لگ رہا ہے اگر تم نے اپنی ضد نا چھوڑی تو میرے دل کا ایک اور کونا ایسے ٹوٹے گا جو کبھی نہیں جڑ پائے گا۔
————————————————
٤ جولائی ١٩٨٦
آجکل گھر اور باہر کی مصروفتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں ۔۔ یوسف کہہ رہا تھا کہ میں اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ پا رہی ہوں سو مجھے نوکری چھوڑ دینی چاہیئے ۔ میں نے جب حیرانگی سے اسے دیکھا تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہا تھا “ جو وقت جاب کو دیتی ہیں وہ گھر کو دیجئے آپا “ ۔۔ارے ۔۔ میں میرا ملک میرا گھر ہی تو ہے ، میں اسے سنوارنا چاہتی ہوں ، خود کفیل بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہوں ۔۔ یوسف اس میں برائی کیا ہے ۔۔؟
برائی ۔۔ ؟ آپ نہیں سمجھیں گی آپا ۔۔۔۔۔ یوسف جا چکا تھا اور میں کتنی ہی دیر تک ہلتے ہوئے پردے کو دیکھتی رہی جہاں آوازوں کے چہرے اگ رہے تھے ۔۔ میری طرف بڑھ رہے تھے ۔۔ یوسف کیا تم بھی ۔۔؟ میں شاید بے یقینی کے عالم میں تھی ۔۔۔۔ یا شاید ساکت ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
کیا اس شہر میں صرف رضوان اور یوسف بستے ہیں ۔۔ جو عورت کے شعور سے خوفزدہ ہو کر اپنی آنکھیں کھولنے کی بجائے اسی کی آنکھیں بند کر دینا چاتے ہیں ۔
———————————————
دو اگست ١٩٨٦
آج بڑے دنوں بعد انکل حمید کی بیٹی جویریہ کا خط آیا تھا ۔۔ بہت دنوں بعد دل کا موسم کچھ خوشگوار سا تھا ۔۔ انکل حمید کے گھر میں لگی ہوئی بیل فلاور کی بیل کو بہت یاد کیا ۔۔ کتنی حسین بیل تھی ، بہار میں جب گھنٹی کے شکل کے ہلکے گہرے نارنجی پھول کھلتے تو کتنئ حسین لگتی ، ایسے جیسے نئی نویلی دلہن کا ہار سنگھار ہو ۔۔ ہوا کی ہلکی سی سرگوشی پر ایسے بل کھاتی پھر کتنے ہی پھول زمین پر گرجاتے تھے ۔۔ انکل حمید کو پھولوں کا گرنا بلکل اچھا نہیں لگتا تھا ۔ ان کے خیال میں یہ بکھیڑے بڑھانے والی بیل ہے اسے گھر میں ہونا ہی نہیں چاہیئے ۔ پھر آئے دن کبھی اس کا سوکھ جانا ۔۔ کبھی ہرا بھرا ہو جانا انہیں آنکھ مچولی لگتا تھا اور وہ اس کھیل سے بھی تنگ رہتے تھے ۔۔۔ جویریہ نے لکھا تھا “ابو جی نے بیل فلاور کی ساری بیلوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے اور اب ہم سب اس بے رونقی کو ختم کرنے کی تدبیریں کر رہے ہیں ۔
ہائے ۔۔ مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے بیل فلاور کی بیل “ میں “ ہوں اور انکل حمید کی طرح سب میرے ہلکے گہرے نارجی پھولوں کی بہار کو بکھیڑا سمجھ کر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ۔۔
————————————-
٢٠ اگست ١٩٨٦
اس بار اگست کے آخر میں رمضان آ گیا تھا ۔۔ ہر طرف گرمی اور بس گرمی ۔۔ مجھے بی بی جی بہت یاد آرہی ہیں ۔ کتنے اہتمام سے وہ سحر سے شام تک کا وقت بتاتی تھیں ۔یوں لگ رہا ہے جیسے ان کے جانے کے بعد سورج نے ہنسنا اور چاند نے مسکرانا چھوڑ دیا ہو ۔ سارا میل سنگ جیسے ختم سا ہوتا جا رہا تھا ۔۔ واقعی ہمارے گھر سے برکتیں اٹھ رہی تھیں ۔ وہ کہا کرتی تھیں “ میری بیٹی پڑھ لکھ کر بہادر بنے گی“ ۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔۔ ہائے میری بی بی جی ۔۔ وہ جان ہی نا پائیں کہ پڑھی لکھی بیٹی اور بہادری میں کوئی قدر مشترک نہیں رہی ۔
بی بی جی سنیے ۔۔ ابا جی نے بھی انکل حمید کی طرح روز کی بک بک سے تنگ آ کر مجھے بیل فلاور کی بیل کی طرح جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ۔ کاش آپ میرے ساتھ ہوتیں تو ہم کچھ بیلوں کو بچا لیتے ۔۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اب وقت قریب آ گیا ہے جب مجھے ڈگریوں کا کفن پہنے اپنی قبر میں خود ہی دفن ہونا ہوگا پر یہ نہیں جانتی کہ روز روز مرنا ہوگا یا صرف ایکبار مروں گی ۔۔
میں کس سے پوچھوں بی بی جی ۔۔ کیا شعور اور آگہی کچی عمروں سے اس کی بے نیازی اور فطری معصومیت چھین لیتی ہے ۔۔۔ کیا تعلیم عیار اور چالاک بنا سکتی ہے ۔۔ یہ کیوں نہیں سوچ سکتے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم نے جلد منزل پالی ہو یا ہم جلد مکمل ہو گئے ہوں ۔۔شاید اس تکمیل کی جدوجہد نے ہماری اوسط عمر کو بھی گھٹا دی ہے جبھی تو رضوان مجھے بوڑھی روح کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔۔
اف مجھے رضوان نے اپنی زہریلی باتوں کا زہر دے کر نیلا کر دیا ہے ۔۔۔۔
———————————————————
٥ ستمبر ١٩٨٦
ابا جی کی سالگرہ میں رضوان کو شدید بارش میں بھی آنا ہی پڑا ۔۔ ہائے کتنے دنوں بعد اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ شاکی نظروں سے مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ مجھے یوں لگا جیسے کہہ رہا ہو “ میں مرد ہوں ۔ عورت کی برتری برداشت نہیں کر پاؤں گا ۔۔ میری مٹی میں بدگمانی اور شک شامل ہوا ہے ۔۔ مان جاؤ ۔۔ پلیز ۔۔ ورنہ میرے اندر کا آدمی مجھ سے بغاوت کر جائے گا ۔ ۔۔ نہیں رضوان اگر تمہارے اندر کے مرد نے ہجرت نا کی تو میرا وطن خوشحال نا ہو سکے گا ۔ میری زمین بنجر رہ جائے گی ۔۔ کوئی بیل فلاور کی بیل کو اپنے گھر نہیں بسنے دے گا ۔۔ کسی کو تو ہارنا ہی ہے ۔۔
تم نے سنا نہیں تھا مسز کاشف آج کتنے بےدردی سے کہہ رہی تھیں “ جب سے یہ عورت گھر سے نکلی ہے، نا برکت رہی گھر میں اور نا رونق ۔۔ دیکھ لیجئے ہمیں بھی مغرب کی طرح اپنے سکھ اور بچوں کی قربانی دینی ہو گی ۔۔ پر کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ گھر تو مل کر بنائے جاتے ہیں ۔ ان کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے پھر صرف قصوروار عورت ہی کیوں ؟
امی جی بتا رہی تھیں تمہارے گھر والے امریکہ سے ہمیشہ کے لیئے واپس آرہے ہیں اور وہ اس رشتے کا باقائدہ اعلان چاہتے ہیں ۔ مگر پتہ نہیں کیوں رضوان فیصلے کا اعلان بار زیست لگ رہا ہے ۔۔ انکار یا اقرار ۔۔
——————————————
٢٥ ستمبر ١٩٨٦
رضوان نے گھر والوں کے آنے سے پہلے ہی ابا جی کی مدد سے گلشن اقبال میں نیا گھر لے لیا تھا اور اسے بڑی محنت سجا سنوار بھی لیا تھا جس کی یوسف نے بہت تعریف کی تھی ۔ آج یونیورسٹی سے واپسی پر رضوان کو گھر پا کر کچھ خوشگوار سی حیرت ہوئی ۔۔ اور مجھ سے ہی مخاطب تھا ۔۔ “ پھر تم نے کیا سوچا ہے “ ۔۔ میں پہلے تو چونکی پھر جانے کہاں سے اتنی ہمت آ گئی اور کہہ دیا “ وہی جوپہلے سوچا تھا “ ۔۔“ سنو تم اس کو اپنی ضد بنا رہی ہو“ ۔۔ رضوان کی ترش آواز پر میرے حلق تک کرواہٹ اتر آئی تھی ۔۔ تمہیں یاد ہے رضوان تم نے کہا تھا “ پڑھی لکھی لڑکیاں گھریلو نہیں ہوتیں ، نوکری انہیں بدتمیز اور گستاخ بنا دیتی ہے ، اور بلا وجہ کی خود اعتمادی انہیں مغرور کر جاتی ہے ، اس لیئے وہ کبھی اچھی بیوی اور دوست نہیں بن سکتیں “ ۔۔۔۔۔۔ میرے لہجے میں کاٹ جانے کہاں سے آگئی تھی جس نے تمہاری آواز کو نگل لیا تھا ۔۔
لیکن وہ باتیں تمہارے لیئے نہیں تھیں ۔۔ تم نے آہستگی سے کہا اور خاموشی اٹھ کر چلے گئے تھے ۔۔
رضوان مسلہ یہ ہے کہ تمہیں مجھ پر اعتبار ہی نہیں ہے ۔۔ جہاں اعتبار نا رہے وہاں سے دوستی ، محبت کی دیواریں نہیں اٹھائی جا سکتیں ۔
بیل فلاور کی جڑیں کاٹ دو گے تو پھول کیسے برسیں گے ۔۔ سوچو تو ۔۔ نوکری اور تعلیم میری انا کا مسلہ نہیں ہے رضوان ۔۔ میرا مسلہ تمہارا دوغلا پن ہے ۔ ایک طرف تم کہتے ہو “ حیا “ چادر اور چاردیواری کی محتاج نہیں ہے بلکہ حیادار زہن و دل کی محتاج ہے ۔ اور جب اپنی باری آئی تو نوکری “ بے حیائی “ سکھاتی ہے اور “ زیادہ تعلیم “ گستاخ بنا دیتی ہے ۔ سنو ۔۔۔۔۔۔ میں تمہاری مشرقی بیوی کے معیار پر پورا نہیں اترتی ۔۔ تو ۔۔ مزید بات کیا ہو ۔۔
کاش تم ایسا نہ کہتے۔۔ ۔ایسا نا سوچتے ۔۔
خدا کے لئے مجھے سولہ سو سال پرانی عورت نا بناؤ ۔۔ مجھے زمین میں زندہ مت گاڑو ۔۔ مجھ سے میرے ہونے کا یقین مت چھینو ورنہ مجھے عورت کے اعتبار ، اس کی حیا ۔۔ اور اس کے وقار کے لیئے تمہیں چھوڑ کر ایک ایسے شخص کا انتظار کرنا پڑے گا جو میری سوچ کے پروں کے ساتھ اپنی پرواز کریں ۔۔ مجھ سے نظریاتی مفاہمت کرے ۔۔ مجھے وہ عزت دے جس کی میں حقدار ہوں ۔۔
————————————————
٢٠ نومبر ١٩٨٦
اور آج میں نے سب کی مخالفت کے باوجود کینیڈا میں “ بیل فلاور ریسرچ “ کے لیئے اپلائی کر دیا ۔۔ امی جی نے حتمی رائے دیدی ہے کہ وہ مجھے کبھی اکیلا نہیں جانے دیں گے ۔۔ اور میں فارم بھرتے ہوئے ہنس پڑی ہوں ۔۔ ہم پڑھی لڑکیاں واقعی ایک عذاب ہی تو ہیں ۔۔ کبھی اسے ہم پلہ ساتھی نہیں ملتا تو کبھی ہم مزاج ۔۔ اف انسانی چیل کوؤں میں گھری ایک تنہا عورت خود کو بچانے کے لیئے خود کو سو ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ ۔۔ میری محبت نے آج دم توڑ دیا ۔۔۔۔
میرے انکار کی آہ بکا میلوں میل پھیل چکی تھی ۔۔۔ مگر نہیں جانتی رضوان میرا دل کیوں بیٹھے جا رہا ہے ۔ جس حؤصلے سے میں تمہیں چھوڑ آئی ہوں اتنی ہی شدت سے رونا بھی چاہتی ہوں ۔۔ محبتوں نے کب دلیلیں مانی ہیں ۔۔ اس کے رواج تو صدیوں سے ایک سے ہی ہیں نا ۔۔ میرے دل ایک اور کونا ایسا ٹوٹ گیا ہے جو اب کبھی نہیں جڑ پائے گا ۔۔
————————————————————-
٣ دسمبر ١٩٨٦
آج انکل حمید کا خط ملا ۔۔ پڑھ کر حیران ہی تو رہ گئی ۔۔ انہوں نے لکھا تھا “ تم بہت یاد آتی ہو ۔۔ تمہارے ساتھ ہنگامے جو چلے آتے ہیں ۔ اب تو گارڈینا کی باڑ بھی قد میں تم سے زیادہ ہو گئی ہے ۔ موتیا گلاب بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔ پر انکل جی وہ بیل فلاور کی بیل آپ نے کیوں جڑ سے اکھاڑ پھینکی تھی ۔۔ پر اب سوچ رہی ہوں کہ اچھا ہی کیا تھا بھلا روز روز کی دیکھ بھال سے بھی جو جو مایوس کرے اس کو صحن سے تو کیا دل سے ہی نکال دینا چاہیئے ۔۔
آپ نے بھی اچھا ہی کیا تھا اور رضوان نے بھی اچھا ہی کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کاش ۔۔ ہم درختوں ، پودوں ، پھولوں ، بیلوں کی حفاظت کر پاتے ۔۔۔۔۔ ہماری دنیا کتنی مہکی اور خوش رنگ ہوتی ۔۔۔۔۔۔
کاش ۔۔۔۔ عورت بھی اس دنیا کا خوش رنگ حصہ ہوتی ۔۔۔
———————————————————
پندرہ دسمبر ١٩٨٦
آج مجھے کینیڈا کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ امی جی کئی دنوں سے بس روئے جا رہی ہیں ۔ اور کئی بار کہہ چکی ہیں اولاد آزمائیش ہی تو ہے “ ۔۔سچ کہا امی جی ۔۔ پر میرے لیئے بھی تو یہ فیصلہ آسان نا تھا ۔۔ میں بھی تو دو دھاری تلوار پر چلی ہوں ۔۔ خدا کی قسم ہمت ہارتی جا ری ہوں پر مجھے پھر بھی جانا ہے ۔۔ مجھے ان لوگوں سے ملنا ہے جو بیل فلاور کو اپنے گھروں کی رونق بناتے ہیں ۔۔ یوسف نے کتنی محبت سے کہا تھا “ آپا سارے اچھے لوگ جدا کیوں ہو جاتے ہیں “ ۔۔ میں اسے بتا نا سکی ناقدری کا دوسرا نام جدائی ہی تو ہے ۔۔ میں اپنے بھائی یوسف کوگلے سے لگائے خود کو تسلی دے رہی تھی کہ میں وہاں جا کر اپنے لوگوں کومجبور کرونگی کہ واپس اپنے ملک چلیں ۔۔اپنے گھر بار کو بچا لیں ۔۔ مجھ جیسی لڑکیاں جو تعلیم کی عمر قید کاٹ رہی ہیں ان کی سزا کی تخفیف کے لئے کشادہ زہنوں کو لوٹنا ہو گا ۔۔۔
انکل حمید کو بیل فلاور کی بیلیں لگانی ہوں گی ۔۔۔ مجھے یقین ہے میرے دل کے جو کونے جھڑ گئے تھے وہ پھر سے جڑ جائیں گے ۔۔
——————————————————-
٢٧ دسمبر ١٩٨٦ بروز ہفتہ
ارے آپ کے پاس آپا کی ڈائری ۔۔۔۔۔ یوسف نے حیرانگی سے رضوان کو دیکھا جس کے سامنے ہلکے براؤن کی ڈائری کا آخری ورق کھلا ہوا تھا
یوسف مجھے کیوں نہیں بتایا اس کے جانے کا ۔۔ رضوان کی آواز جیسے کہیں ڈوب رہی تھی
آپا نے منع کر دیا تھا ۔۔ وہ لاپرواہی سے بولا
اچھا کیا تھا اس نے ۔۔ رضوان کی بات یوسف کی سمجھ میں شاید نہیں آئی تھی جبھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا
چلیں اب ۔۔ مجھے آپا کی ڈائری انہیں پوسٹ بھی کرنی ہے جب سے کینڈا گئی ہیں ہر بار تاکید کرتی ہیں ۔ ایک طویل خاموشی کے بعد یوسف نے سے کہا ۔۔۔ رضوان اب بھی خاموش ہی تھا اور خاموشی سے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا ۔۔ کچھ دیر کے بعد وہ دھیرے سےمسکرا دیا ۔۔۔ اور یوسف کو آواز دیتے ہوئے کہا ۔۔ “ جلدی کرو یار ۔۔ تم کو پوسٹ آفس ڈراپ کرنے کے بعد مجھے بیل فلاور کی بیلیں بھی خریدنی ہیں ۔۔۔ یوسف جلدی سے گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا ۔۔ اور ایک دفعہ پھر پوچھا ۔“ آپ کو آخری یہ ڈائری ملی کہاں سے “ ۔۔۔ رضوان نے دکھ سے کہا
“ ملی تو لیکن ملی بڑی دیر سے “ ۔۔۔۔۔۔۔۔
———————————————————