فلم دهماکہ ریلیز ہوئی
پاکستان کی فلمی دنیا کی ایک ایسی فلم 13/ دسمبر 1974ء کو ریلیز ہوئی جو باکس آفس پر تو بری طرح ناکام ہوئی مگر بعض حوالوں سے اسے ایک یادگار فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ فلم’’دھماکہ‘‘ تھی جسے اردو کے معروف اور مقبول ناول نگار ابن صفی مرحوم کی ’’عمران سیریز‘‘ کے ایک ناول ’’بیباکوں کی تلاش‘‘ کی کہانی پر فلم بند کیا گیا تھا۔ اس فلم کے فلم ساز محمد حسین تالپور تھے جو اپنی وضع قطع کے حوالے سے’’ مولانا ہیپی‘‘ کے نام سے معروف تھے اور فلم کی ہدایت قمر زیدی نے دی تھیں جو اس سے قبل رشتہ ہے پیار کا‘ سالگرہ اور نصیب اپنا اپنا جیسی کامیاب فلمیں بنا چکے تھے۔
فلم کی موسیقی لال محمد اقبال نے ترتیب دی تھی اور نغمات ابن صفی اور سرور بارہ بنکوی نے تحریر کیے تھے۔ان کے علاوہ اس فلم میں شیکسپیئر کی ایک نظم میر تقی میر کی ایک غزل بھی شامل کی گئی تھی۔ دھماکہ مشہور اداکار جاوید شیخ کی پہلی فلم تھی جنہوں نے اس فلم میں جاوید اقبال کے نام سے کام کیا تھا۔ ان کے علاوہ اس فلم کی کاسٹ میں شبنم، رحمٰن‘ قربان جیلانی‘ لہری‘ تمنا‘ عرش منیر‘ شائستہ قیصر اور خود مولانا ہیپی شامل تھے۔ جاوید شیخ نے اس فلم میں ظفر الملک کا اور مولاناہیپی نے جیمسن کا کردار ادا کیا تھا اس فلم میں ابن صفی کے مشہور کردار علی عمران کو نہیں دکھایا گیا تھا البتہ اس کی آواز کو ابن صفی کی آواز میں ریکارڈ کر کے فلم میں شامل کیا گیا تھا۔ رحمٰن نے فلم میں ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں حبیب ولی محمد کی آواز میں ابن صفی کی ایک غزل’’راہ طلب میں کون کسی کا‘ اپنے بھی بیگانے بھی‘‘ شامل کی گئی تھی جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئی تھی۔
فلم دھماکہ 13 / دسمبر 1974ء کو کراچی کے لیرک اور بعض دیگر سینمائوں میں ریلیز ہوئی اور 9 / جنوری 1975ء تک نمائش پذیر رہی‘ اس دوران اس نے 25 ہفتے مکمل کیے‘ اس کا شمار پاکستان کی فلاپ فلموں میں کیا جاتا ہے۔
————————————————————————————————————
خیر محمد نظامانی کی وفات
سندھ کے ممتاز ادیب، صحافی اور تحریک خلافت، خاکسار تحریک اور تحریک پاکستان کے کارکن خیر محمد نظامانی کا انتقال 13 / دسمبر 1960ء کو بدین میں ہوا-
خیر محمد نظامانی 1908ء میں ضلع حیدرآباد کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ 14 سال کی عمر میں انہوں نے سیاسی اور سماجی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور 1923ء میں جب ان کی عمر 15 برس تھی وہ پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے تھے۔ 1930ء میں انہوں نے کراچی سے روزنامہ کارواں جاری کیا جو مسلم لیگ کی خبریں نمایاں طور پر شائع کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ روزنامہ مہران کے مدیر رہے۔ مسلم لیگ کی پالیسیوں سے بددل ہوکر وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور جماعت کے اخبار خادم وطن کے مدیر بھی رہے۔
خیر محمد نظامانی کا انتقال بدین میں ہوا اور وہ وہیں آسودۂ خاک ہیں۔
————————————————————————————————————-
پرنس کریم آغا خان کی پیدائش
فرقہ اسماعلیہ کے انچاسویں امام ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان کی تاریخ پیدائش 13 / دسمبر 1936ء ہے۔ آپ سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوئم کے سب سے بڑے صاحبزادے پرنس علی خاں کے فرزند ہیں۔
13 / جولائی 1957ء کو اسماعیلی فرقے کے انچاسویں امام چنے گئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفی کامل سے حاصل کی۔ اس کے بعد سوئٹزر لینڈ کے لے روزا اسکول میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ انگلستان میں قیام کیا۔ پھر 1954ء میں ہارورڈ یونیورسٹی (امریکہ) میں داخلہ لے لیا۔ وہاں زیر تعلیم تھے کہ آغا خان سوئم کی رحلت پر اسماعیلی فرقے کی امامت کا بار ان کے کندھوں پر آپڑا۔ آپ نے عملاً ثابت کر دکھایا کہ آپ اس منصب جلیلہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے اور نبھانے کے پوری طرح اہل ہیں۔
آپ انگریزی، فرانسیسی، اردو، فارسی، اطالوی اور ہسپانوی زبانوں میں خاصی استعداد رکھتے ہیں۔ آپ کو مشرق وسطیٰ کی تاریخ سے خاص شغف ہے۔ فٹ بال، ٹینس، کشتی رانی اور اسکیٹنگ آپ کے پسندیدہ کھیل ہیں۔ آغا خان سوم مرحوم شروع ہی سے آپ کو منصب امامت پر فائز کرنے کے متمنی تھے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی دینی تربیت پر خاص توجہ کی اور ان میں اسماعیلی فرقے اور عام مسلمانوں کے دینی مسائل سے دلچسپی لینے کا جذبہ پیدا کردیا۔
منصب امامت پر فائزہونے کے بعد آپ کی گدی نشینی کی پہلی رسم 13 / جولائی 1957ء کو جنیوا میں ادا کی گئی۔ اس کے بعد یہ رسومات دارالسلام، نیروبی، کمپالا، کراچی، ڈھاکہ، بمبئی، کانگو اور مڈغاسکر وغیرہ میں ادا کی گئیں۔ ان تمام رسومات میں آپ کو امامت کی مہردار انگوٹھی، تلوار اور حبہ پیش کیا گیا۔
شہزاد کریم آغا خان اپنے جلیل القدر دادا آغا خان سوئم کی طرح اصلاحی کاموں میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں آپ ہی کی ہدایت پر آغا خان فائونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے زیر نگرانی دنیا بھر میں مدارس، اسپتال اور تحقیقاتی ادارے وغیرہ قائم کیے گئے ہیں۔ مختلف ممالک میں سماجی اور معاشی ترقی کے لیے انڈسٹریل پروموشن سروسز (I.P.S) شروع کی گئی جس کی خدمات نہ صرف اسماعیلی صنعتکاروں اور تاجروں کے لیے بلکہ ان ممالک کے لیے بھی نمایاں ہیں جہاں اسماعیلی برادری بڑی تعداد میں آباد ہے۔ کراچی میں آغا خان ہیلتھ سروسز نے ایک عظیم الشان اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی قائم کی ہے جو ملک میں اپنے طرز کی پہلی یونیورسٹی ہے اور فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فن تعمیر کی ترویج کے لیے آپ نے 1980ء سے ہر تیسرے سال نوبل انعامات کی طرز پر ایسی عمارات کو جو کسی بھی اسلامی ملک میں تعمیر ہوئی ہوں اور اسلامی فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہوں، انعامات دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں پیرس میں ایک فائونڈیشن قائم کیا گیا ہے۔
پرنس کریم آغا خان کو مختلف ممالک نے مختلف خطابات اور اعزازات سے بھی نوازا ہے، جس میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ہزہائی نس کا خطاب اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز بھی شامل ہے۔
————————————————————————————————————-
علامہ شبیر احمد عثمانی کی وفات
بغداد الجدید (بہاولپور) میں 13 / دسمبر 1949ء کو نامور عالم دین شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتقال ہوگیا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی 1885ء میں بجنورمیں پیداہوئے تھے۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بھی تھے اور ایک طویل عرصہ تک اس دارالعلوم میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔ 26 اکتوبر 1946ء کو انہوں نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ اور اس کے مطالبۂ پاکستان کی حامی تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے لئے علامہ شبیر احمد عثمانی کی خدمات کے بڑے معترف تھے۔ 14 / اگست 1947ء کو جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں پاکستان کا پہلا پرچم بلند کرنے کا اعزاز انہی کے حصے میں آیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بھی علامہ شبیر احمد عثمانی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ مارچ 1949ء میں پاکستان کی مجلس دستور ساز نے جو قرارداد مقاصد منظور کی تھی اس کی تیاری میں انہوں نے بھی بڑابھرپور حصہ لیا تھا۔
13 / دسمبر 1949ء کو علامہ شبیر احمد عثمانی نے وفات پائی۔ ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں اگلے روز 14 / دسمبر 1949ء کو انہیں اسلامیہ کالج کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی تھی
وقار زیدی ۔ کراچی